ہفتہ, مئی 02, 2020

روبیک مکعب


روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔

روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔
روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔
روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔
روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔

روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔

روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔

روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔

روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔

روبیک مکعب، (انگریزی:Rubik's Cube)، مکعب ٹکڑوں پر مشتمل ایک کھلونا پہیلی۔ جو پہلی بار 19 مئی 1974 کو ہنگری میں بنایا گیا یہ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے کھلونوں میں سے ایک ہے، جو 2005 تک تین کروڑ کی تعداد میں بک چکا تھا اس کو ہنگری کے ایک ماہر تعمیرات، مجسمہ ساز، پروفیسر ارنو روبیک نے ایجاد کیا۔ ان ہی کے نام سے اس کو روبیک کے مکعب کہا جاتا ہے۔

دوسروں سے بھی شیئیر کریں:

محمد زاہد کوثری

محمد زاہد بن حسن حلمی کوثری، کوثری کی نسبت قفقاز میں دریائے شیز کے کنارے ان کے گاؤں کی طرف ہے، بعض کے مطابق یہ نسبت ان کے اجداد میں سے کسی کی جانب ہے، جو مشہور قدیم قبیلہ "جرکسی" کی شاخ "شابسوغ" سے تھے۔

ولادت
زاہد کوثری کی ولادت ترکی کے مشرقی استنبول سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر دوزجے کے قریب "حاجی حسن قریسی" نامی ایک گاؤں میں دوشنبہ کے دن 27 یا 28 شوال سنہ 1296 ہجری مطابق 14 اکتوبر سنہ 1878 عیسوی میں ہوئی۔

تحصیل علم اور حالاتِ زندگی
زاہد کوثری نے سلطنت عثمانیہ کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں فاتح مسجد، استنبول میں علم و فقہ حاصل کیا، پھر وہیں پڑھانا شروع کر دیا اور مجلس تدریس کے ذمہ دار بن گئے، پہلی جنگ عظیم کے دوران میں جمعیت اتحاد و ترقی جو ترکی میں عصری علوم کا منصوبہ رکھتی تھی اور علامہ کوثری کی شخصیت اور ان کی دینی علوم میں خدمات نیز مدرسہ میں اکثر دینیات سے متعلق تعلیمی گھنٹے ان کے منصوبوں میں رکاوٹ بن رہے تھے، اس لیے اتحادیوں نے ان پر ظلم کرنا شروع کیا، پھر جب مصطفٰی کمال اتاترک اور اس کے ہمنوا ترکی میں غالب ہوئے اور الحادی نظام اور دہریت کا کھلم کھلا اعلان کیا اور علامہ کی گرفتاری کا منصوبہ بنایا تو ایک دن سنہ 1341 ہجری مطابق 1922 عیسوی میں اسکندریہ جانے والی ایک بحری جہاز میں سوار ہو گئے، پھر اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک مصر اور شام کے درمیان مقیم رہے، پھر وہاں سے قاہرہ میں ترکی دستاویزات کے عربی مترجم کی حیثیت سے دار المحفوظات مصر میں نوکری پائی، عربی، فارسی، ترکی اور جرکسی زبان بہت بہترین جانتے تھے اور عربی لہجہ اور اسلوب میں بہترین گفتگو کرتے تھے۔

علامہ کوثری کی شخصیت علمی، روحانی، فقہی اور ادبی ہر لحاظ سے بہت بلند اور اعلیٰ تھی، ان کی شخصیت فقہی و روحانی آرا و نظریات کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔

تصنیفات وتالیفات
ان کی بہت سی علمی و دینی تصنیفات ہیں، جن میں سے شائع شدہ تصانیف درج ذیل ہیں

مقالات الکوثری۔
صفعات البرہان على صفحات العدوان۔
العقیدہ وعلم الکلام من اعمال الاِمام محمد زاہد الکوثری۔
الفقہ واصول الفقہ من اعمال الاِمام محمد زاہد الکوثری۔
تانیب الخطیب على ما ساقہ فی ترجمہ ابی حنیفہ من الاکاذیب۔
نظرہ عابرہ فی مزاعم من ینکر نزول عیسى علیہ السلام قبل الاخرہ۔
الاِشفاق على احکام الطلاق فی الرد على من یقول: اِن الثلاث واحدہ۔
اللامذہبیہ قنطرہ اللادینیہ۔
محق التقول فی مسالا التوسل۔
الاستبصار فی التحدث عن الجبر والاختیار۔
تحذیر الخلف من مخازی ادعیاء السلف۔
النکت الطریفہ فی التحدث عن ردود ابن ابی شیبہ على ابی حنیفہ۔
اِحقاق الحق باِبطال الباطل فی مغیث الخلق، ویلیہ: اقوم المسالک فی روایہ مالک عن ابی حنیفہ وروایہ ابی حنیفہ عن مالک۔
التحریر الوجیز فیما یبتغیہ المستجیز۔
الترحیب بنقد التانیب۔
من عبر التاریخ فی الکید للاِسلام۔
فقہ اہل العراق وحدیثہم۔
نبراس المہتدی فی اجتلاء ابناء العارف دمرداش المحمدی۔
رفع الاشتباہ عن حکم کشف الراس ولبس النعال فی الصلاہ۔
اِرغام المرید فی شرح النظم العتید لتوسل المرید۔
تعطیر الانفاس بذکر سند ابن ارکماس۔
حنین المتفجع وانین المتوجع۔
الفوائد الوافیہ فی علمی العروض والقافیہ۔
الاِفصاح عن حکم الاِکراہ فی الطلاق والنکاح۔
ملخص تذہیب التاج اللجینی فی ترجمہ البدر العینی فی اول شرح البخاری۔
لمحات النظر فی سیرہ الاِمام زفر رضی اللہ عنہ۔
حسن التقاضی فی سیرہ الاِمام ابی یوسف القاضی۔
بلوغ الامانی فی سیرہ الاِمام محمد بن الحسن الشیبانی۔
الاِمتاع فی سیرہ الاِمامین الحسن بن زیاد وصاحبہ محمد بن شجاع۔
الحاوی فی سیرہ الاِمام ابی جعفر الطحاوی۔
جس پر مقدمہ و تعلیق کی

الغرہ المنیفہ للسراج الغزنوی الہندی فی تحقیق نحو مائہ وسبعین مسالا، رداً على الطریقہ البہائیہ للفخر الرازی۔
دفع شبہ التشبیہ باکف التنزیہ لابن الجوزی۔
تبیین کذب المفتری فیما نسب اِلى الاِمام ابی الحسن الاشعری لابن عساکر۔
التبصیر فی الدین وتمییز الفرقہ الناجیہ عن الفرق الہالکین لابی المظفر الاِسفرایینی۔
الفرق بین الفرق لعبد القاہر البغدادی۔
التنبیہ والرد على اہل الاہواء والبدع لابی الحسین الملطی۔
الاِنصاف فیما یجب اعتقادہ ولا یجوز الجہل بہ لالباقلانی۔
العقیدہ النظامیہ لاِمام الحرمین الجوینی۔
الاسماء والصفات للبیہقی۔
اختلاف الموطآت للدارقطنی۔
بیان زغل العلم للذہبی۔
المصعد الاحمد لابن الجزری۔
الانتصار والترجیح للمذہب الصحیح لسبط ابن الجوزی۔
السیف الصقیل فی الرد على ابن زفیل (فی الرد على نونیہ ابن القیم) لتقی السبکی، والتعلیقات معروفہ باِکمالہ الرد ومسماہ بتبدید الظلام المخیم من نونیہ ابن القیم۔
مراتب الاِجماع لابن حزم، ونقدہ لابن تیمیہ۔
النبذ فی اصول الفقہ الظاہری لابن حزم۔
الاختلاف فی اللفظ والرد على الجہمیہ والمشبہہ لابن قتیبہ، والتعلیق یسمى لفت اللحظ اِلى ما فی الاختلاف فی اللفظ۔
رسالہ ابی داود فی وصف سنتہ۔
مناقب ابی حنیفہ وابی یوسف ومحمد بن الحسن للذہبی، ومعہا ایضاً تعلیق الاستاذ ابی الوفاء۔
ذیول طبقات الحفاظ للحسینی وابن فہد ولسیوطی۔
العالم والمتعلم۔
رسالہ ابی حنیفہ اِلى عثمان البتی۔
الفقہ الابسط للاِمام ابی حنیفہ۔
اللمعہ فی الوجود والقدر وافعال العباد لاِبراہیم بن مصطفى الحلبی المذاری۔
کشف اسرار الباطنیہ لمحمد بن مالک الحمادی۔
الروض الزاہر فی سیرہ الملک الظاہر للبدر العینی۔
شروط الائمہ الستہ لمحمد بن طاہر المقدسی وشروط الخمسہ للحازمی، والتعلیقات علیہا مسماہ بالتعلیقات المہمہ على شروط الائمہ۔
کشف المغطى من فضل الموطا لابن عساکر۔
العقل وفضلہ لابن ابی الدنیا۔
الحدائق فی الفلسفہ العالیہ للبطلیوسی۔
حقیقہ الاِنسان والروح للجلال الدوانی۔
منیہ الالمعی فیما فات الزیلعی للعلامہ قاسم بن قطلوبغا۔
الانتقاء فی تاریخ الائمہ الفقہاء، مالک والشافعی وابی حنیفہ لابن عبد البر۔
خصائص مسند احمد لابی موسى المدینی۔
شرح الحکیم محمد بن ابی بکر التبریزی على المقدمات الخمس والعشرین۔
من دلالہ الحائرین لموسى بن میمون۔
جس پر کچھ لکھ

شرح مقامہ (الحور العین) لنشوان الحمیری۔
الروض النضیر فی شرح المجموع الفقہی الکبیر للسیاغی الصنعانی۔
نثر الدر المکنون فی فضائل الیمن المیمون للسید محمد الاہدل۔
الدر الفرید الجامع لمتفرقات الاسانید للسید عبد الواسع الیمانی۔
بیان مذہب الباطنیہ وبطلانہ من کتاب قواعد عقائد آل محمد لمحمد بن الحسن الدیلمی۔
طبقات ابن سعد من الطبعہ المصریہ۔
نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ للحافظ الزیلعی، تقدمتہ واسعہ وجداول التصویب غیر وافیہ، فتحتاج اِلى اِکمال۔
فتح الملہم فی شرح صحیح مسلم للعلامہ شبیر احمد العثمانی۔
ترتیب مسند الاِمام الشافعی للحافظ محمد عابد السندی۔
احکام القرآن جمع البیہقی من نصوص الاِمام الشافعی۔
مناقب الاِمام الشافعی للحافظ عبد الرحمن بن ابی حاتم الرازی الشافعی۔
ذیل الروضتین للحافظ ابی شامہ۔
فہارس البخاری لفضیلہ الاستاذ الشیخ رضوان محمد رضوان۔
اِشارات المرام من عبارات الاِمام ابی حنیفہ النعمان لکمال الدین البیاضی۔
کشف الستر عن فرضیہ الوتر لعبد الغنی النابلسی۔
العالم والمتعلم لابی بکر الوراق الترمذی۔
الاعلام الشرقیہ للاستاذ زکی مجاہد۔
انتقاد المغنی عن الحفظ والکتاب للاستاذ حسام الدین القدسی۔
النہضہ الاِصلاحیہ للاسرہ الاِسلامیہ للاستاذ مصطفى الحمامی۔
منتہى آمال الخطباء لہ ایضاً۔
براہین الکتاب والسنہ للعلامہ العارف باللہ الشیخ سلامہ العزامی۔
قانون التاویل لحجہ الاِسلام ابو حامد الغزالی|الغزالی۔
الثمرہ البہیہ للصحابہ البدریہ لمحمد سالم الحفناوی۔
کتاب بغداد لابن طیفور۔
فتاوى تقی الدین السبکی۔
اِیضاح الکلام فیما جرى للعز بن عبد السلام۔
تاریخ القوقاز۔
دفع شبہ من شبہ وتمرد ونسب ذلک اِلى السید الجلیل الاِمام احمد للتقی الحصنی۔
تعلیقہ على مادہ (الجرکس) فی تعریب دائرہ المعارف الاِسلامیہ۔
وفات
علامہ کوثری کی وفات 19 ذو القعدہ 1371 ہجری، مطابق 11 اگست 1952 عیسوی میں 75 سال کی عمر میں ہوئی، نماز جنازہ کی امامت شیخ و ادیب عبد الجلیل عیسیٰ نے کی اور قرافہ شافعی میں ابو العباس طوسی کی قبر کے قریب دفن ہوئے
دوسروں سے بھی شیئیر کریں:

جمعہ, مئی 01, 2020

کتب خانہ اسکندریہ


کتب خانہ اسکندریہ کی بنیادبطلیموسی فرمانروا سوتر اول نے اسکندریہ کے مقام پر رکھی لیکن اس کے بیٹے فیلاڈلفس (Philadelphus) کی علم پروی اور کتابوں سے دلچسپی نے کتب خانہ اسکندریہ کوجلد ہی اس قابل بنا دیا کہ ایتھنز کی علمی وثقافتی مرکزیت وہاں سمٹ آئی۔ اصحاب علم وفضل دور دور سے اس علمی مرکز کی طرف جوق در جوق کھنچے چلے آتے تھے۔

تاریخ
کتب خانہ اسکندریہ کا قیام بھی نینوا کے کتب خانہ کی طرح شاہی سرپرستی میں عمل میں آیا۔ اگرچہ دونوں کتب خانوں کے قیام کا درمیانی وقفہ چار صدیوں پر محیط ہے لیکن ان دونوں کتب خانوں میں بعض امور میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ باوجود مطالعاتی مواد میں اختلاف (نینوا کا کتب خانہ جوکتب خانہ اشور بنی پال کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں الواح سفالی یعنی مٹی کی تختیوں پر لکھا جاتا تھااور اسکندریہ کے کتب خانے میںقرطاس مصریپر) کے ماہرین نے ان دونوں کی اندونی تنظیم، مواد کی درجہ بندیاور کتب کی پیداوار کے طریق کار میں کافی حن تک مطابقت موجود ہے۔ یہ کتب خانہ ایک کثیر المقاصد عجا ئب گھر میں قائم کیا گیا تھا جو رصدگاہ، ادارہ علم الابدان، ادارہ نشر و اشاعت اور کتب خانہ کی عمارت پر مشتمل تھا۔ مورخین کے نزدیک اس علمی ادارے کو دنیا کی سب سے پہلی جامعہ یا سائنسی اکادمی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

تحریری مواد
کتب خانہ اسکندریہ میں کتابوں کا ذخیرہ زیادہ تعداد میں پیپرس اور جھلی کے رول یا پلندوں پر مشتمل تھا۔ چونکہ مصری لوگ پہلے پیپرس (قرطاس مصری) کو بطور تحریری مواد دریافت کر چکے تھے۔ جس کی دریافت کا نوع حضرت مسیح علیہ السلام سے کم و پیش چارہزار برس پہلے عام ہو چکا تھا۔ اس پر لکھے ہوئے نوشتے رول یاپلندہ کی شکل میں ہوتے تھے اور ان کے دونوں کناروں پر دو گول لکڑی کے ٹکڑے لگا دیے جاتے تھے جن پر اس کو لپیٹ دیا جاتا۔

کتب کی فراہمی
یونانی عہد کے کتب خانون کا ایک اہم پہلو یہ بھی رہا ہے کہ ان کے ذخیرہ علمی میں غیر ملکی کتب بھی موجود تھیں جن میں زرتشت کی تحریریں اور بعض سنسکرت کی کتابوں کی موجودگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کتب خانوں میں کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے متعدد اقداقات کیے جاتے تھے۔ یونانی جالینوس لکھتا ہے کہ

بادشاہ بطلیموسسوم کے حکم کے مطابق جونہی کوئی جہاز بندرگاہ میں داخل ہوتا تو سیاحوں اور مسافروں کی تلاشی لی جاتی اگر ان کے پاس کتابوں کا کوئی ذخیرہ ہوتا تو بحق سرکار ضبط کر کے کتب خانے کی زینت بنا دیا جاتا اور ان کتب کی نقول تیار کرا کرمالکوں کو تبادلہ میں فراہم کر دی جاتی تھیں۔
مزید برآں ایتھنز میں قحط سالی کے دوران یونان کو غلہ اس شرط پربھیجا جاتا تھا کہ وہاں سے ایسکیوسسوفا کلینر اور یوری پائیڈزکی تصانیف اسکندریہ کے کتب خانے کو منتقل کردی جائیں۔ مشہور مستشرق ول ڈیورنٹ کے بیان کے مطایق لوگ دور دور سے پرانے نسخے اور نادر محظوطات اسکندریہ کے کتب خانے میں منہ مانگے داموں فروخت کرتے تھے۔ لیکن سب سے اہم اضافہ اس وقت ہوا جب بطلیموس سوم نے 286 ق-م میںکتب خانہ ارسطو اور تھیوفریسٹس کا بڑا حصہ حاصل کر کے اس میں مدغم کر دیا۔

ذخیرہ کتب
کتب خانے میں کتابوں کی تعداد میں اگرچہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاہم مورخین اس بات پر متفقہ ہیں کہ اس زمانے میں اس عظیم کتب خانے سے بڑھ کر کوئی دوسرا سرمایہ علمی موجود نہ تھا۔ بعض مورخین نے کتب خانے میں مسودات کی تعداد 2لاکھ اور بعض نے 5 لاکھ تک بیان کی ہے، جبکہ کے کچھ کے نزدیک یہ تعداد 7 لاکھ تھی۔ کیلی ماکس کے بیان کے مطابق اس کتب خانے کے دو حصے تھے۔ بیرونی حصے میں 42ہزار اور اندرونی حصے میں 4 لاکھ نوے ہزار کتابیں تھیں جو مصری، عبرانی، لاطینی اور دیگر زبانوں میں لکھی گئی تھیں۔50 ق-م میں اس عظیم کتب خانے میں سات لاکھ کتابیں موجود تھیں۔ اس کتب خانہ کی نصف کتابیں47 ق-م میں جولیس سیزر کے لشکر نے جلا کر خاکستر کر دیں۔

تنظیم
اس عظیم کتب خانے کی ترتیب و تنظیم کے بارے میں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گيا ہے، اس کو متعدد شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جن میں دارلآثار(عجائب گھر)، دارالترجمہ، شعبہ نشر و اشاعت اور دارالمطالعہ(لاہبریری) قابل ذکر ہیں۔ کیلی ماکس کے ذمہ جو اس کتب خانے کے مہتمم کا دست راست تھا، کتابوں کی مضمون وار تقسیم اور کیٹلاگ سازی کا کام تھا۔ کتاب کا اندراج کرتے وقت عنوان، مصنف کا علمی منصب، علمی استعداد اور مصنف کی دیگر تصانیف کے بارے میں ضروری معلومات وغیرہ تک شامل کی جاتی تھیں۔ کیلی ماکس کوقومی کتابیاتمرتب کرنے کی پوری ذمہ داری سونپی گئی تھی جس کا ذکر اوپر آیا ہے۔

درجہ بندی
تاریخ کتب خانہ کے ماہر "ہیسل"(Hessel)کے بقول کتابوں کی درجہ بندی مضمون وار کی جاتی تھی۔ کتابیں ابجدی ترتیب سے آراستہ کی جاتی تھیں یہ 120 بڑے بڑے موضوعات میں کی گئی تھی۔ جس کو مزید ذیلی موضوعات میںتقسیمکیا گیا تھا۔کالی ماکس کی درجہ بندی کی تقسیم مندرجہ ذیل 12 موضوعات یعنی

فلسفہ
اقلیدس
طب
موسیقی
تہوار
مورخین
مقررین
شعرا
اہل قلم
طیور
مچھلیاں
پنیر کی ٹکیاں
پر مشتمل تھی۔ کتابیں ایک طویلقرطاس مصری(پیپرس)کے رول یا پلندہ کی شکل میں ہوتی تھیں۔ جنہیں یا تو افقیشکل میں الماریوں کے خانوں کے اندر یا پھرعمودیطورپرمخروطیمرتبانوں میں رکھا جاتا تھا۔ ان رول کو حوالہ کے لیے بار بار کھولنے اور لپیٹنے میں خاصی دقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اور بقول کیلی ماکس

ایک بڑی کتاب ایک بڑی مصیبت ہوتی ہے(تھی)۔
اس نے اس مشکل پر قابو پانے کے لیے کتابوں کو حصوں میں تقسیم کرنے کی "طرح" ڈالی۔ جس سے کتابوں کے مطالعہ کرنے میں کافی آسانی پیدا ہوگئ۔ بقول جالینوس(Galen)نئی حاصل شدہ کتابوں کو فوری طور پر الماریوں کی زینت نہ بنائی جاتیں بلکہ ایک ہی مضمون کی کتابیں یکجا کی جاتیں۔ بعد میں ماہرین مضامین رولز کو ان کے مندرجات کے مطابق ترتیب دیتے تھے۔

عملہ
کتب خانہ اسکندریہ کے عملے میں یونان کے نامور اہل قلم اور علما شامل تھے۔ جن میں مشہور ماہر لسانیاتاورشاعرکیلی ماکس، ایراٹوستھینز (Eratosthenes)مشہور بازنطینی فلسفی ارسٹوفینز (Aristophanes),ارسٹاکس اور زینوڈوٹس(Zenodotus)قابل ذکر ہیں۔

کتب خانے کا انجام
تقریباً سات صدیوں تک قائم رہنے والے اس کتب خانے کا انجام بڑا عبرتناک ہوا۔391 میں تھیوفلس اعظم (Patriarch Theophilus)کے حکم سے عیسائیوں نے اس کی کتابوں کو نیست و نابود کر دیا۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس سے کفرپھیلنے کا اندیشہ تھا۔ رہی سہی کسراورلین(Aurelian)کے عہد میں خانہ جنگی کے دوران پوری کر دی گئی۔

مسلمانوں پر الزام
ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ اس کو مصرکی فتح کے وقت مسلمانوں نے نذرآتش کر دیا اس الزام کی تردید خود مستشرقین مثلاً ایڈورڈ گبن(Gibbon) اور قلپ کے ہٹی(P.K Hitti)وغیرہ نے بھی کی ہے، ان کی تحقیق کے مطابق 47 ق-م جب قیصر نے اسکندریہ کا محاصرہ کیا تو تباہی اس کتب خانہ کا مقدر بن گئی۔ یہ کتب خانہ ظہوراسلام سے 200 سال پہلے مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا۔
دوسروں سے بھی شیئیر کریں:

خدا کے نام



خدا کے نام ہر مذہب میں اور ہر زبان میں الگ الگ ہیں، خدا کی صفات ذاتی اور عام طور پر ہر مذہب اور زبان میں مماثلت کی حامل ہیں کہ وہ خالق ہے، مالک، ہے رز‍ق دینے والا، گناہ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا اور دعا سننے والا۔ پھر بھی مختلف مذاہب میں خدا کی کچھ خصوصیات الگ ہیں دوسرے مذہب سے، جس وجہ سے اس مذہب میں خدا کا کچھ ناموں کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو باقی مذہب میں ملتا ہے۔ جیسے مسیحیت میں صلیبی موت کے عقیدے نے مسیح کو اکلوتا، بیٹا، روح القدس کا نام دیا کيا ہے۔ جبکہ اسلام میں خدا کے ناموں میں واحد ہے، جس کا معنی ہے کہ وہ صرف ایک ہے، اس کا کوئی بیٹا نہیں۔ مسیحیت، یہودیت میں خدا کو یہوداہ، ایلوہیم، ایل، وہ، میں جو ہوں سو میں ہوں، جیسے نام بھی دیے گئے۔ زبانوں کے فرق سے انسانوں نے اس مالک الملک ہستی کو کہیں اللہ، کہیں ایشور، کہیں گاڈ، کہیں یہوواہ، کہیں اہور امزدا، کہیں زیوس، کہیں یزداں، کہیں آمن، کہیں پانکو اور کہیں تاؤ کا نام دیا۔ دنیا بھر کے مذہب میں مختلف زبانوں میں اس ہستی کے لیے بیسیوں نام پائے جاتے ہیں۔


احادیث میں اسمائِے الہٰیہ

اوپر دئے گئے اللہ کے معروف ننانوئے نام رسول اللہﷺ کی اس حدیث سے ماخذ ہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث میں مزید سینکڑوں اسمائے الہٰیہ ملتے ہیں۔ مثلاً اَلْحَیِیُّ، السِّتِّیْرُ، الْحَنَّانُ، الْمَنَّانُ، الْمُسْتَعَانُ، العلام، المحسن، الجمیل، المولی، النصیرالسید، المسعر، الطیب، الوتر، الکریم، الاکرم، الشافی، الاعلی، المبین، العالم، غافرالذنب، قابل التوب، شدیدالعقاب، ذی الطول، الجواد، الطیف، الرفیق، اھل التقوی، اھل المغفر، خیرالحافظ، خیر الراحمین، نعم المولی، نعم النصیر، نعم الماھدون، الظاھر، المبارک، فعال لما یرید، ذوالعرش المجید، القریب، القائم، الاعز، السبوحالقاھر، الغالب، الکافی، الصالح، مقلب القلوب۔ وغیرہ۔۔۔۔ اُن میں سے چند اسمائے الہٰیہ یہاں پیش کیے جا رہے ہیں جو طبرانی، ترمذی، بخاری، مسلم، ابن ماجہ، ابن حیان، ابن خزیمہ، حاکم، صادق، حافظ ابن حجر اور دیگر روایت کردہ احادیث میں مذکور ہیں۔

قدیم انبیائے کرام کے بیان کردہ اسمائِے الہٰیہ

تحقیق کے مطابق حضرت آدم کے بعد سریانی زبان میں اللہ کے لیے جو اسم منسوب کیا وہ دیوہ، کا لیوہ تھا۔ حضرت نوح کے زمانے میں اللہ کو پہچاننے کے لیے جو اسم استعمال ہوتا تھا وہ اللہ اور الاللہ کے ہم معنی تھا پھر حضرت نوح کے بعد تمخاہ اور تمخیا اپنالیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے صدیوں پہلے اللہ اور الاللہ کو اسمِ الٰہی قرار دیا گیا۔ فونیقی زبان میں خدا کو ایلون (Elon یا Elion) کہتے تھے۔ جو اِمتداد زمانہ کے باعث اہرامک میں الہٰ، آشوری میں ایلو اور عبرانی میں ایل (عبرانی: אל) میں تبدیل ہو گیا۔ حضرت ابراہیم نے ایل کو اسمِ الٰہی فرمایا۔

توریت میں اسمائِے الہٰیہ

توریت میں سب سے زیادہ جو اسم استعمال ہوا ہے وہ ایلوہم اور یہووا ہے۔ توریت میں یہووا 6823 مرتبہ اور ایلوہم 156 مرتبہ آیا ہے اور کئی بار یہووا ایلوہم ایک ساتھ بھی ملتا ہے۔ یہوواہ کے لغوی معنی ”وہ رب“ یا ”وہ ذات“ کے ہیں۔ عربی میں یہ لفظ یاہُوَ یعنی ”وہ“ اور لفظ ایلوہ عربی میں اللہ کی صورت اختیار کرگیا۔ توریت میں درج عبرانی زبان کے کئی اسمائے الہٰیہ عربی میں منتقل ہوئے جیسے شلوم (سلام) اور اُخُد (احد)، علیون (اعلیٰ)، حئ (الحئ)، ماکوم (قیوم)، ملیکنو (مالک)، مالک یا مالکم (مالک الملک) توریت میں ایک نام ادونائی (میرے رب) بھی آیا ہے جو کنعانی لفظ ”ادو“ سے ماخذ ہے جس کے معنی ہیں رب۔ اس کے علاوہ حضرت موسیٰ نے ایل الوہی اسرائیل (اسرائیل کا خدا)، بعل (مالک)، زِلگوسر (ربِ عرشِ عظیم) جبکہ حضرت ایوب نے ایلوہا اور حضرت دانیال نے الٰہ کو اسم الٰہی قرار دیا۔ توریت میں اس کے علاوہ جو اسمائے الہٰیہ درج ہیں ہم یہاں آپ کے سامنے اُن کے معنی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ ایل علیون (رب الاعلیٰ)، ایل شیدائی (قادر المطلق)، ایل حئی (الحئی)، ماکوم (قے وم)، ایل اولام (الآخر)، ایل روئی (البصیر)، ایل جبرُ (القدیر)، ادونائی (ربّی)، یہوواہ تزیوت (رب الافواج، رب العالمین)، شلوم (سلام)، ایموت (الحق)، اوینو (رب)، ملیکنو (الملک)، راع (المھیمن اور المقیت)، مالک یا مالِکم (مالک الملک) اس کے علاوہ اہیا اسراہیا (وہ میں ہوں)، نِسی (سایہ فگن)، رافا (شفیع)، جیراہ (وہاب)۔


دوسروں سے بھی شیئیر کریں: